Saturday, November 23, 2013

جب صحافی خود خبر بن جائے!


…جویریہ صدیق…


پاکستان میں سچ بولنا آسا ن ہے اور نا ہی لکھنا، جب بھی کوئی صحافی ایک حد سے زیادہ سچ لکھتا ہے یا جھوٹ چھاپنے سے انکار کردیتا ہے تو یہ معاشرہ اس کو خود خبر بنا دیتا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کے لیے حالات نائن الیون کے بعد سے سازگار نہیں کبھی انہیں دہشت گردوں کا سامنا پڑتا ہے تو کبھی ایجنسیوں کے احکامات کبھی سیاسی جماعتوں کے اسلحہ برادر ونگ ان کو تنگ کرتے ہیں تو کبھی اپنے ہی دفاتر میں ان کو مشکلات کا سامنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی بہت سے صحافی دن رات محنت کرکے سچ اور حقائق عوام کے سامنے لا رہے ہیں۔ پاکستان میں اب تک بہتر صحافی اپنے فرض کی ادائیگی میں اپنی جان سے ہاتھ گنوا بیٹھے ہیں اور آج تک کسی بھی صحافی کے قاتل کو سزا نہیں سنائی گی۔ صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس(سی پی جے) کے مطابق صحافیوں کے لیے پاکستان دنیا کا پانچواں خطرناک ملک ہے۔ اگر اس سال کی صورتحال کا جایزہ لیا جائے تو ماضی قریب میں 9 محرم الحرام کو دھماکے میں کراچی میں متعدد صحافی زخمی ہوئے، ان کی مدد تو کرنا دور کی بات کسی نے ان کی عیادت کرنا بھی گوارا نا کیا۔ 12 اکتوبر 2013 کو خیبر پختونخواہ کے ضلع کرک میں منشیات کے بڑھتے ہوئے کاروبار کے بارے میں خبر دینے والے صحافی ایوب خٹک کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس سے پہلے 13 صحافیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور یہاں سے خبر دینا جان جوکھوں کا کام ہے، اسی سال 16 اپریل کو مقامی اخبار کے اسلم درانی دوران فرایض پشاور میں خود کش حملے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بلوچی اور اردو میں شائع ہونے والے روزنامے کے سب ایڈیٹر عبدالرزاق بلوچ 24 مارچ کو لاپتہ ہوئے تھے اور 21 اگست 2013 کو سرجانی ٹاوٴن کے ویرانے سے ان لاش ملی۔ یکم مارچ 2013 کو بلوچستان کے علاقے قلات میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے سینیئر صحافی محمود آفریدی کو قتل کردیااورشمالی وزیرستان ایجنسی کے سینیئر صحافی ملک ممتاز کو 27 فروری کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ جنوری میں دوران ڈیوٹی تین صحافیوں مرزا اقبال حسین، سیف الرحمان اور عمران شیخ نے کوئٹہ بم دھماکے میں جام شہادت نوش کیا۔ اگر صورتحال 2012 کی ہو تب بھی صحافیوں کے لیے حالات بدترین رہے۔ کراچی میں نومبر کے مہینے میں مقامی اخبار کے ثاقب خان کو قتل کردیا گیا، صوبہ بلوچستان میں نومبر میں ہی نیوز چینل کے رحمت اللہ عابد، اکتوبر کے مہینے میں خیرپور سندھ میں نیوز چینل کے مشتاق خند، ماہ ستمبر میں صوبہ بلوچستان میں عبدالحق بلوچ، کوئٹہ میں عبدالقادر حاجی زئی اور نیوزچینل کے رزاق گل کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، خیبر پختونخوا میں جنوری میں مکرم خان عاطف نے ادائیگی فرائض کے دوران جام شہادت نوش کیا۔ سلیم شہزاد اسلام آباد کے صحافی جن کے شب و روز صرف خبر کے ساتھ وابستہ تھے، وہ خود اک روز خبر کا حصہ بن گئے۔ نوجوان صحافی ولی خان بابر کے قاتلوں نے کیا دستانے پہنے ہوئے تھے جو اب تک قاتلوں کا سراغ نہیں ملا اور ان کے کیس کو سندھ سے پنجاب منتقل کردیا گیا۔ مکرم خان ہوں، عارف خان یا مصری خان، موسی خیل ہوں یا چشتی مجاہد، ہدایت اللہ خان ہوں یا عامر نواب، راجہ اسد حمید ، فضل وہاب ہوں یا صلاح الدین، غلام رسول ہوں یا عبد الرزاق، محمد ابراہیم، ساجد تنولی ہوں یا شاہد سومرو یا لالہ حمید بلوچ ہوں یہ تمام صحافی صرف حق کی راہ کے شہید ہیں۔ ذمہ دار چاہے ریاست ہو یا اس کے ستون، دہشت گرد ہوں یا ملکی حالات لیکن اس تمام صورتحا ل نے پاکستان کو صحافیوں کے لئے خطرناک ملک بنا دیا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے مسلمہ بین الاقوامی معیار کے مطابق صحافیوں کی ہلاکتوں اور اغواء کے واقعات کی مکمل اور جامع تحقیقات کرائے اور ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لائے، لیکن اب بھی ورثا اور صحافی برادری انصاف کی منتظر ہے۔

No comments:

Post a Comment

کراچی ،ضمنی انتخابات کے موقع پر وہی ہوا جس کا ڈرتھا،بڑاتصادم،پارٹی کارکن مشتعل ،اضافی نفری طلب 8 گرفتار

کراچی(این این آئی)کراچی میں پی ایس ایک سو چودہ کا ضمنی انتخاب سیکیورٹی اداروں کیلئے مسئلہ بن گیا ، چنیسر ہالٹ کے پولنگ سٹیشن پر سیاسی کارکنو...