ایسا ھے کہ زندگی میں بعض اوقات کسی شخص کی وہ خواھشات جو ھم سے وابستہ ھوتی ھیں، باوجود قدرت کے ھم وہ بھی پوری نھیں کرتے، اور پھر اس سے پیدا ھونے والی نا آسودگی سے دکھی لذت کشید کرتے رھتے ھیں۔
اس خود ساختہ پشیمانی کے قطرہ انفعال کو جنت کا پروانہ سمجھتے ھوئے ڈھٹائی سے جئے جاتے ھیں۔
مردہ روحوں کو یہ ھی زندگی سزاوار ھے ..
حیف! اے جدید دور کے انسان کہ تو بھی خود کو انسان سمجھتا ھے۔
کلام درویش شاھد اعوان ..
جب کوئی شخص وسعت کے باوجود کسی کے درد کا درماں نہ کرے اور وقت گزر جانے کے بعد اس غریب کے دردناک انجام پر دکھیا اسٹیٹس لکھ کر ثواب دارین حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اس شخص کا مرثیہ ایسے ھی مضمون سے لکھا جانا چاھئے